جمعرات 13 مارچ 2025 - 07:39
سب سے بڑے سماجی قاتل کے بارے میں قرآن کا سخت انتباہ

حوزہ/ قرآن کریم سورہ حجرات کی آیت 12 میں غیبت کو ایک خوفناک سماجی قاتل قرار دیتا ہے اور اسے ایک لرزہ خیز تشبیہ کے ذریعے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ یہ قبیح عمل ابتدا میں بدگمانی سے جنم لیتا ہے، پھر تجسس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آخرکار غیبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جو قرآن کی تصریح کے مطابق، انسانی تعلقات کو بگاڑ دیتا ہے اور سماجی سطح پر قومی اتحاد کو ختم کر کے معاشرے کو انتشار کی طرف لے جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہ مبارک رمضان میں، انسان کی زندگی بدل دینےوالی آیات یعنی آیات زندگی کے عنوان سے قرآن کریم کی آیات اور ان کی مختصر اور عملی تفسیر پیش کی جا رہی ہے تاکہ ہم ان بابرکت دنوں کو اللہ کے کلام سے منور کر سکیں۔

قرآن کریم سورہ حجرات کی آیت 12 میں غیبت کو ایک خوفناک سماجی قاتل قرار دیتا ہے اور اسے ایک لرزہ خیز تشبیہ کے ذریعے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ یہ قبیح عمل ابتدا میں بدگمانی سے جنم لیتا ہے، پھر تجسس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آخرکار غیبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جو قرآن کی تصریح کے مطابق، انسانی تعلقات کو بگاڑ دیتا ہے اور سماجی سطح پر قومی اتحاد کو ختم کر کے معاشرے کو انتشار کی طرف لے جاتا ہے۔

غیبت: سماج کے لیے مہلک زہر

حجت‌الاسلام والمسلمین عباس اشجع اصفہانی نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِیمٌ۔

"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور ٹوہ میں نہ لگو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے کراہت کرو گے، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔" (سورہ حجرات: 12)

غیبت کے تباہ کن اثرات

قرآن مجید اس آیت میں غیبت کو ایک نہایت قبیح اور نقصان دہ گناہ قرار دیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی تعلقات کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آیت کا آغاز ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کیا، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے مؤمن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکامات پر عمل کرے اور غیبت سے بچے۔

آیت میں بدگمانی سے اجتناب پر بھی زور دیا گیا ہے: "اجتنبو کثیراً من الظن" یعنی "بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔" اگرچہ بعض گمان (مثلاً سیکیورٹی کے معاملات میں) ضروری ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر مواقع پر یہ منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور انسان کو گناہ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

غیبت کی نفرت انگیز حقیقت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ولا تجسسوا" یعنی "اور کسی کے معاملات میں تجسس نہ کرو۔" جب انسان بدگمانی میں مبتلا ہوتا ہے، تو وہ اس کی تصدیق کے لیے دوسروں کے معاملات میں تجسس کرتا ہے، جو بذاتِ خود ایک گناہ ہے۔

یہی عمل بالآخر غیبت کا سبب بنتا ہے، جس کے متعلق قرآن سختی سے فرماتا ہے: "ولا یغتب بعضکم بعضاً" یعنی "تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔"

اللہ تعالیٰ نے غیبت کی قباحت کو واضح کرنے کے لیے ایک مثال دی: "أیحب أحدکم أن یأکل لحم أخیه میتاً؟" یعنی "کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟"

جس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانا فطری طور پر انسان کو گھناؤنا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح غیبت بھی ایک ایسی اخلاقی گراوٹ ہے جس سے ہر مؤمن کو سخت نفرت ہونی چاہیے۔

غیبت کے اجتماعی نقصانات

یہ گناہ نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے بلکہ سماجی سطح پر بھی انتہائی مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔

یہ باہمی اعتماد کو ختم کر کے سماجی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

معاشرتی سطح پر یہ اتحاد و یگانگت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے اور معاشرے میں نفاق و انتشار پیدا کرتا ہے۔

توبہ کا دروازہ کھلا ہے

آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "واتقوا اللہ، إن اللہ تواب رحیم" یعنی "اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔"

یہ جملہ امید کی کرن ہے کہ اگر کوئی شخص غیبت میں مبتلا ہو چکا ہو تو وہ اللہ کی بارگاہ میں خالص توبہ کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہایت مہربان ہے اور بندوں کی توبہ کو قبول فرماتا ہے۔

یہ قرآنی آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے بلکہ اپنے دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور گمانوں کو بھی قابو میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم تجسس اور غیبت جیسے مہلک گناہوں سے محفوظ رہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha